عصری زرعی کاشتکاری، پیداوار کی ایک علمی شکل ہے جو توانائی کے بہاؤ کی پیداواری صلاحیت کو زیادہ سے زیادہ بڑھا سکتی ہے، جو کہ پیداواری قوتوں میں مرکزی حیثیت رکھتی ہے۔ مجموعی طور پر، یہ تجویز کیا جاتا ہے، جن شرائط و ضوابط کے ذریعے عصری زرعی سوال کو حل کیا جا سکتا ہے وہ ایک زرعی تَبدیلی کے ذریعے ہے۔
(ہارون اکرم لودھی، 2021)
I کسان بننا
تین سال پہلے، میں نے اپنے گاؤں تریل میں ایک فارم شروع کیا، جو راولپنڈی اور اسلام آباد کے جڑواں شہروں کی سرحد سے دس کلومیٹر سے بھی کم فاصلے پر واقع ہے۔ تریل ہمالیہ کے دامن میں بارانی پوٹھوار سطح مرتفع میں واقع ہے، اور جنوبی ایشیا کے بڑے شہروں سے ملحق بہت سے علاقوں کی طرح، تیزی سے شہری علاقہ بنتا جا رہا ہے۔ شہری معیشت پر اس کاانحصار روز بروز بڑھ رہا ہے۔ یہاں کی بارش پر منحصر زراعت کی پیداوار ناموافق موسمی اثرات کے باعث کم اور غیر یقینی ہے۔ ایک ریسرچر اور سیٹیزن پلانر(شہروں کی منصوبابندی میں حصہ لینے والا شہری) کے طور پر‘ مجھے تجسس تھا کہ کیا زراعت کے نئے طریقے زرعی زمین کو رئیل اسٹیٹ (real estate) میں بدلنے کے مقابلے میں کاشتکاری کو زیادہ منافع بخش بنا سکتے ہیں۔ مجھے پنجاب ایگریکلچر اینڈ ایکسٹینشن سروسز ڈیپارٹمنٹ کے ساتھ کام کرنے کا سابقہ تجربہ تھا اور ان کے وسائل کو بڑے پیمانے پر استعمال کیا۔ اپنے فارم کے تجربے کے ساتھ، میں یہ جاننے کے لیے بھی متجسس تھا کہ موجودہ ریاستی وسائل ہمارے بارانی علاقوں میں زراعت کی نئی شکلوں کی ترقی میں کس طرح مدد کر سکتے ہیں۔ چونکہ میں موسمیاتی تبدیلی کے تناظر میں زرعی ماحولیات یا ایگرو اکولوجی (agroecology) اوراصلاحی زراعت (regenerative agriculture) سے واقف تھی، اس لیے میں جاننا چاہتی تھی کہ اِس بارے میں زرعی سائنس ہماری کیا مددکر سکتی ہے اور ہمیں کیا کرنا ہو گا۔
دنیا زرعی اور غذائی بحران کا شکار ہے جہاں کسان کو منصفانہ معاوضہ نہیں ملتا اور عوام غذائی عدم تحفظ کا شکار ہیں ۔حالیہ دہائیوں میں زرعی سائنس سے اُمید لگائی جا رہی ہے کہ وہ اس بحران کو حل کر سکتی ہے۔ اس بحران پر کنٹرول یقینی بنانے کے لیے یہ ضروری ہے کہ ’’ خوراک کے اصل پیداکاروں اور استعمال کنندگان کے درمیان طاقت کو منصفانہ طور پر تقسیم کیا جائے‘‘ (اکرم لودھی 2021، 687)۔ یہ بھی ضروری ہے کہ چھوٹے کسانوں کو مربوط کیا جائے اور ایک مقامی اور جمہوری نظام خوراک میں ان کی غذائی خودمختاری کو ترجیح دی جائے۔ ایگرو اکولوجی ایسے “فن کاشتکاری” پر زور دیتی ہے جو زمین کی زرخیزی کو بہتر بنائے، بیرونی آدانوں کی ضرورت کو کم کرے، اور مسائل کے حل کے لیےمقامی علم پر مبنی کاشتکاری کے دیسی طریقوں کو بیدار کرے (اکرم لودھی 2021، 709)۔ ساتھ ہی زرعی تعلقات کا ایک ایسا متبادل ماڈل تیار کرنے کی ضرورت ہے جو چھوٹے کسانوں کو “قومی پیمانے پر پیداوار” حاصل کرنے کے لیے منظم کرے اورعلم کو پیداواری قوت کا مرکز بنائے (اکرم لودھی 2021، 690)۔
پنجاب کے نہری میدانی علاقوں میں مشینی زراعت کا مقابلہ کرنے سے قاصر،بارانی خطہ پوٹھوا ر میں واقع تریل جیسے دیہات میں زرعی کاشت مقامی ضروریات کے لیے سردیوں میں گندم اگانے، اور گرمیوں میں زمین کے ایک محدود حصے میں چارا اگانے تک محدود ہے۔ زمین آدھا سال بے کاشت چھوڑ دی جاتی ہے جس کا نتیجہ زمین کے کٹاؤ اور انحطاط کی صورت میں نظر آتا ہے۔ ایگرو اکولوجی کے اصولوں کو عمل میں لا کر بھاری زرعی مشینری، کیمیائی کھادوں اور کیڑے مار دواؤں جیسے دیگر آدانوں پر انحصار کم کر کے روایتی کاشتکاری سے حاصل پہلے جیسی یا اس سےبہتر پیداوار حاصل کرنا ممکن ہے۔ آدا نوں پر خرچ کم ہونے سے پیداوار میں اضافے کے ساتھ (یا اس کے بغیر بھی) زراعت زیادہ منافع بخش بنائی جا سکتی ہے ۔ ایگرو اکولوجی طریقوں کو بروئے کار لا کر مجھے اُمید تھی کہ میں ان زوال پذیر زمینوں کی زرخیزی کو بحال کروں گی۔ اپنے فارم پر کئی طرح کی فصلوں کی کاشت کا نظام رائج کروں گی ۔ اس طرح ایک حیاتیاتی تنوع حاصل ہو گا جس سے ہمارے فارم کی پیداوار میں استحکام آئے گا اور اس کی موسمی تبدیلیوں کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت بڑھے گی۔
II کاشت کرنا
میں نے اپنے تجرباتی فارم کے لئے ایک پر جوش ہدف مقرر کیا۔ میں اپنے فارم کو ایک ایسے مستحکم اور منافع بخش فارم کی صورت دینا چاہتی تھی جو ہمارے گاؤں کے اوسط کسان کے لیے قابل نقل اور قابل توسیع ہو۔ اسے پہلے سے زیادہ سرمایہ لگانے کی ضرورت نہ ہو، اور وہ کم سے کم ایک محنت کش خاندان کے گزارے کے لیے کافی آمدنی پیدا کر سکے۔ س علاقے میں ایک عام اصول یہ ہے کہ پانچ ایکڑ اراضی کا ایک خاندان مناسب طریقے سے انتظام کر سکتا ہے۔
اس تجربے کو عملی جامع پہنانے کے لئے مجھے پاکستان میں کسانوں کے ایک اجتماع سے رہنمائی ملی، جسے پائدار قدرتی نظام کاشتکاری ( PQNK) کا نام دیا ۔ اس کی سربراہی ماہر زراعت آصف شریف کر رہے تھے۔ اس گروپ نے تجربات کو شیئر کرنے اور رہنمائی کے لیے ایک پلیٹ فارم فراہم کیا ۔گروپ چار بنیادی طریقوں کی سفارش کرتا ہے: (1) سخت پین کو زمین میں چھین کر توڑ دیں۔ (2) تمام کھیتی بند کرو۔ (3) ہر چیز کو مستقل اٹھائے ہوئے بستروں پر لگائیں۔ اور (4) ہمیشہ زندہ یا مردہ ملچ کی شکل میں ایک موٹا احاطہ رکھیں۔
۔ آصف شریف کی کوششوں میں کسانوں کے متعدد واٹس ایپ گروپوں کو منظم کرنا، ان کے سوالات کے جوابات دینا اور ان کی کامیابی کی مثالیں شیئر کرنا شامل تھا۔ مجھے امید تھی کہ اس نظام کا حصہ بننےسے میرا دوسرے کسانوں سے رابطہ ہو گا اور میں اُن کے تجربات سے سیکھ سکوں گی۔ اسی طرح کا ماڈل نیشنل ایسوسی ایشن آف سمال فارمرز اور La Via Campesina کے Campesina-o-Campesina (کسان سے کسان تک) نے بھی اپنایا اور پائیدار، زرعی ماحولیاتی کاشتکاری کے طریقوں کو پھیلانے کے لیے استعمال کیا ۔
میں نے جون 2020 میں اپنی زمین پر باڑ لگانا شروع کی۔ ہمارے علاقے میں ایسا رواج کم ہے لیکن پڑوسیوں کو یہ سمجھانے کے لیے ضروری تھاکہ ہم ان کی بکریوں کے لیے چراگاہ نہیں بنا رہے ۔ ایک فارم سپروائزر کے ساتھ مل کر، ہم نے مونگ پھلی کی اپنی پہلی فصل کسی سیڈر کے بغیر ہاتھ سے لگائی اور PQNK پر منتقلی کے طریقوں میں غوطہ لگا دیا۔ ہم اس چیز کے لئے تیار تھے کے رائج طریقے کاشتکاری سے اس نئے طریقے پر جانا ایک تکلیف دے مرحلہ ہو گا ۔ معیاری پی کیو این کے کا مشورہ یہ تھا کہ زمین کو برابر کرنے، چھینی، ہل چلا کر، مستقل بستر/بنے بنا کر اورزمین ڈھکنے والی فصل/ملچ کاشت کر کے دوبارہ تخلیقی نظام میں منتقلی کا آغاز کیا جائے۔ ایک گاڑھا ملچ بنانے کے لیے ڈھکنے والی فصل کو کھیت میں کچلا یا ختم کیا جا سکتا ہے، جس کے اندر پھر اہم فصل کاشت کی جا سکتی ہے۔ فصل کی جڑیں مستقل بستروں پر پانی کے جذب ہونے کے لیے جگہیں پیدا کریں گی اور مٹی کی حیاتیات کی بحالی کا ماحول بنائیں گی۔ کئی فصلوں کے بعد بیڈ کی مٹی زرخیز اور نرم ہو جائے گی کیونکہ ہل نہ چلنے کی صورت میں مٹی کی زرخیزی آہستہ آہستہ بحال ہو جاتی ہے اورمٹی اپنے نامیاتی مواد کو دوبارہ حاصل کر لیتی ہے۔
پہلے دو سالوں میں ہم نے تیزی سے کئی فصلوں کا تجربہ کیا۔ یہ سمجھنے کی کوشش کی کہ گاؤں کی کہ رواجی فصلیں گندم اور چارے تک کیوں محدود ہو گئی ہیں ۔ہم نے دالوں سے لے کر گوارا ، اناج، اور کئی biomass والی فصلوں کو آزمایا۔ محکمہ زراعت پنجاب کی سفارش یہ تھی کہ زیادہ قیمت اورکم حجم والی اشیا پر توجہ دی جائے اس لیے ہم نے چھوٹے رقبے پر سبزیاں اگانے کے لیے ایک کنواں کھدوایا۔ زیرو tillage (یعنی کاشت کا ایسا نظام جس میں ہل نہ چلایا جائے) کے تکنیکی مسائل کے پیش نظر ہم نے زمین کے کچھ حصے پر باغات لگانے کا بھی تجربہ کیا۔
تین سال میں ہم نے بہت سی چیزیں بوئیں لیکن شاذ و نادر ہی فصل کی اچھی ابتدائی نشو نما حاصل کر پائے ۔ وقت کے ساتھ ساتھ ہمارے بیجوں کا اگاؤ کم ہوتا گیا اور ہم کبھی بھی روایتی نظام کے مقابلے میں
معقول پیداوار حاصل نہ کر سکے۔ آپ سوچ رہے ہوں گے کہ یہ کیا ماجرا تھا۔
III آگہی
بارش پر مبنی پوٹھوار کے بارانی علاقوں میں ایک کامیاب زیرو tillage زراعت کا نظام وضع کرنے کی کوشش نے ہمارے لیےکچھ اہم مشکلات کی نشاندہی کی۔ ساتھ ہی ہم نے کئی سبق بھی سیکھے۔
مشینری کی حدود
اصلاحی زراعت (regenerative agriculture) سے میرا تعارف شمالی امریکہ سے ملنے والے انٹرنیٹ پر موجود مواد کے ذریعے ہوا۔ ہمارا پانچ ایکڑ کا فارم دو غیر متصل حصوں میں تقسیم تھا اور زمین ایک سطح پر نہ ہونے کی وجہ سے کئی چھوٹے چھوٹے کھیتوں پر مشتمل تھا جن کا انفرادی رقبہ چند کنال سے زیادہ نہیں تھا۔
چونکہ پاکستان میں زیرو tillage نظام ابھی زیادہ متعارف نہیں ہے۔ اس کےلیے درکار مشینری پر ابھی زیادہ تحقیق نہیں ہوئی خاص طور پر ایسی مشینری پر جو بارانی علاقوں کے لیے موزوں ہو۔ ہمارا زیرو ٹلیج سیڈر فصلوں کی باقیات والے کھیت میں اگاؤ (germination) حاصل کرنے میں ناکام رہا۔ فصل کا اچھا جھاڑ حاصل کرنے میں ہماری ناکامی کی وجہ سے ہمارا کرمپر crimper ایک سیزن کے بعد ہی غیرمتعلق ہو گیا۔ ہمارے ridger کے استعمال پر بھی سوالیہ نشان ہے کیونکہ ہمیں بارانی علاقوں میں raised beds کی ضرورت نہیں۔ہمارے تین سال، زیرو ٹلیج کاشتکاری کے لیے ایک مکمل نظام کے لیے درکار مناسب مشینوں کی تلاش اور ریسرچ میں گزر گئے۔
آپ کا گاؤں میرا گاؤں نہیں ہے: جو سسٹم آبپاش نہری علاقوں میں کام کرتا ہے، وہ بارانی علاقوں کے لیے موزوں نہیں
PQNK کے خدوخال کو نہری علاقوں کی ضرورتوں اور تجربے کو مد نظر رکھتے ہوئے تیار اور بہتر کیا گیا تھا۔ مثال کے طور پر، اس تناظر میں، raised beds پانی کی بچت میں بہت کارگر ہیں کیونکہ یہ کسان کو اپنی زمین کو پانی دینے کے لیے flood irrigation نظام سے furrow irrigation نظام پر جانے کی سہولت دیتے ہیں۔ نہری علاقوں میں چونکہ پانی کی دستیابی بارش پر منحصر نہیں ھوتی،کسان اصلاحی زراعت شروع کرنے کے ابتدائی مرحلے میں زمینی نمی اور بیج کے اگاؤ کو کنٹرول کر سکتا ہے۔ اگر بیج کا اگاؤ نہ ہو تو کسان یا تو دوبارہ آبپاشی کر کے بیج کو اُگنے کا موقع دے سکتا ہے یا دوبارہ بو کر آبپاشی کر سکتا ہے۔ بارانی علاقوں میں بارش کے پانی کو کو ہر ممکن حد تک جذب کرنا اور زمین میں نمی کو برقرار رکھنا علاقے کے سب کسانوں سے مل کر واٹرشیڈ کو منتظم کرنے کی ایک بڑی کوشش کے بعد ہی ممکن ہے ۔ ہمارے فارم کے بلند کھیت مستقل طور پر کم نمی کا شکار رہے۔ اس کا مداوا کرنے کے لیے ہم نے بارشی پانی کو روکنے اور زمین میں جذب و محفوظ کرنے کے لیے نالیوں /swales کا بھی تجربہ کیا۔ ہمارے فارم کے ںنشیبی علاقے سیم کا شکار رہے۔ اچھی نکاسی کے لیے بڑی کوششیں کرنا پڑیں۔ موسمیاتی تبدیلی کے اثرات زیادہ واضح ہوتے جا رہے ہیں، ہمیں ایسی طویل خشک سالی کا سامنا کرنا پڑا جو ہمارے خطے میں نایاب ہے۔ چوں کہ یہ ایک انفرادی کوشش تھی، واٹرشیڈ کی منصوبہ بندی کرنے کی ہماری صلاحیت محدود تھی اور ہم نمی کنڑول کرنے کے چیلنجوں سے نمٹتے رہے۔
کاشتکاری ایک پیچیدہ اور تکنیکی نظام ہے جس کے لیے کئی شعبوں میں مہارت ضروری ہے
کسان، خاص طور پر چھوٹے کسان کی معاشرہ میں کوئی قدرنہیں ۔ کاشتکاری کو غیر ہنر مند پیشہ سمجھا جاتا ہے، کسانوں کو ناخواندہ سمجھا جاتا ہے، اور چھوٹے رقبوں کو غیر پیداواری سمجھا جاتا ہے۔ ایک ناتجربہ کار کسان کے طور پر، مجھے زیرو tillage کاشتکاری نظام سیکھنے کے ساتھ ساتھ بنیادی زرعی مہارت بھی حاصل کرنی تھی ۔ میں نے فرض کیا کہ میں کسانوں کے لیے پہلے سے دستیاب وسیع وسائل (جیسے محکمہ ذراعت توسیع ، انٹرنیٹ، اور ساتھی کسانوں کا علم و ہنر) کو استعمال کروں گی اور اپنی غلطیوں سے سیکھ کے اپنے فارم میں اصلاحی کاشتکاری کا ایک سسٹم ڈیزائن کر لوں گی۔ تاہم ایسا نہ ہو سکا۔ میں نے محسوس کیا کہ درکار علم و ہنر پر عبور حاصل کرنے کے لیے مجھے متعدد ڈگریوں کی ضرورت ہے۔ ایک کسان کو ہائیڈروولوجسٹ، soil scientist ،ماہر موسمیات، ماہرزراعت، فصلوں کے نظام کا ماہر، لینڈ سکیپ کی سمجھ رکھنے والا اورایک بزنس مینیجر ہونا ضروری ہے۔ اصلاحی زراعت کی بنیاد اس علم پر رکھنا ضروری ہے جو پچھلی نسلوں کے تجربے پر مبنی ہے اور کسان کو اپنی زمین، مٹی سے لے کر پودوں، کیڑے مکوڑوں، جانوروں اور آسمانوں تک ہر چیز کو پڑھنے کی آنکھ فراہم کرتا ہے۔
سرمایہ دارانہ زراعت نے ’فن کاشتکاری‘ کے نقصان کی قیمت ادا کی ہے۔
شاید میرے لیے سب سے اہم چیلنج یہ سمجھنا تھا کہ ملٹی کراپپنگ نظام کو کیسے تیار کیا جائے۔ اگرچہ اس بارے میں مواد دستیاب ہے کہ کون سی فصلیں اکٹھی لگائی جا سکتی ہیں اور کیسے پیچیدہ انٹرکراپڈ سبزیوں کے کیارے کام کر سکتے ہیں، اس کے کامیاب ہونے کے لیے کافی ناپ تول کی ضرورت ہے۔ میرے والد نے میرے گاؤں میں سبزیوں کے اور کپاس جیسی فصل اگانے کی میری پرنانی کی کہانیاں سنائیں، جس کا آج تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ اس اور میرے درمیان کی نسل میں، ہم نے زراعت کی مہارتیں کھو دی ہیں کیونکہ صنعتی عمل نے قبضہ کر لیا ہے۔ یہاں دیہاتی ذاتی استعمال کے لیے گھریلو پیمانے پر سبزیاں لگاتے ہیں، لیکن فروخت کے لیے بڑے پیمانے پر سبزیاں نہیں اگائی جاتیں ۔
میں نے اپنے عزیزوں سے پوچھا کہ “میں سبزیوں کے باغ کو کامیاب کیسے کر سکتی ہوں “
’’آپ کو ایک ڈیرہ بنانا ہوگا (مزدوروں کے رہنے کے لیے جگہ )، پھر آپ پنجاب کے نہری علاقوں سے سبزی کاشت کرنے والے ماہر کو لائیں گی ۔ وہ آپ کے لیے سبزی کا فارم قائم کر دے گا ۔‘‘ یہ وہ جواب تھا جو مجھے ملا۔ انہوں نے بنیادی طور پر تسلیم کیا کہ سبزیوں کی کاشت کی مہارت مقامی طور پر موجود نہیں ہے
ملٹی کراپپنگ نظام کا ماڈل تیار کرنے کے لیے میرا بہترین ذریعہ 1893 کاراولپنڈی ضلع کا برٹش گزٹیئر تھا، جس میں کئی نسلوں پہلے کے زرعی طریقوں کو باریک بینی سے ریکارڈ کیا گیا تھا۔
سائنسی باریکیاں بمقابلہ عمل
دو سال تک ناکامی دیکھ کر، میں نے اپنے علاقے میں زیرو tillage کاشتکاری کے طریقوں پر تحقیق کرنے والے ایک مقامی سائنسدان کو اپنی رہنمائی کے لیے مدعو کیا۔ انہوں نے فارم کا دورہ کیا اور ہماری کوششوں کو صفر کر دیا ۔”یہ مری ہوئی گھاس ملچ نہیں ہے، یہ زمین کے نامیاتی مادے میں کچھ بھی شامل نہیں کرتی ” اور دیگر مشاہدات کے درمیان بولے “اس قسم کی باقیات میں کوئی زیرو ٹلیج سیڈر نہیں بو سکتا”۔ ان کی سفارش یہ تھی کہ ہمیں zero tillage کے بجائے minimum tillage پر چلا جانا چاہیے کیونکہ ہمارے جغرافیائی خطے میں زیادہ درجہ حرارت کی وجہ سے مٹی میں نامیاتی ماده ضایع ہو جاتا ہے اور ہماری مٹی بہتر نہیں ہو سکتیں ۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ پوٹھوار کی مٹی میں بوائی کا عمل آسان نہیں کیونکہ “سُکی تے لوہیا، گلی تے گوہیا (سوکھنے پر لوہے کی طرح سخت اور گیلے ہونے پر گوبر کی طرح نرم)”۔
جب مقامی سائنس دان ہمیں بتا رہے تھے کہ ہمارے ماحول میں نو ٹِل سسٹم کام نہیں کر سکتا، regenerative اصلاحی زراعت پر جدید تحقیق یہ بتا رہی تھی کہ اگر مٹی کی اصلاح کی تمام شرائط پوری کر دی جائیں تو روایتی نظام دو ہفتوں سے بھی کم وقت میں اصلاحی زرعی نظام میں منتقل ہونا شروع ہو سکتا ہے۔ اسی طرح، جب ریجنریٹیو ایگریکلچر سائنس کے جدید ترین ٹیکنالوجی کے عاملین ہائی فریکوئنسی (تیز رفتار) مٹی کے نمونے لینے کے طریقے دریافت کر رہے تھے ،PQNK کے استادان گرامی ہماری مقامی لیبارٹری کے soil tests کو ناقابل اعتبار بتاتے ہوئے مسترد کر رہے تھے۔ اُن کا مشورہ تھا کہ مجھے صرف مٹی کا قریب سے مشاہدہ کرنے، اس کی ساخت اور پودوں کی نشو و نما میں تبدیلیوں کو نوٹ کرنے کی ضرورت ہے۔ سائنسی تحقیق اور ہمارے عمل کے درمیان جو وقفہ تھا، وہ ہم سر نہ کر سکے ۔
سائنس دان تیزی سے بڑے پیمانے پر مٹی کے نمونے لینے کے لیے تکنیک تیار کر رہے تھے کیونکہ مٹی کی ساخت جگہ اور وقت کے لحاظ سے مختلف ہوتی ہے: مٹی ہر چند میٹر کے بعد بدل جائے گی اور، ہر گزرتے دن کے ساتھ، فارم کے انتظام کے لیے ان تبدیلیوں کو ٹریک کرنے اور اصلاحی اقدامات کرنے کے قابل ہونا ضروری ہے۔ ہمارے لیے، مٹی کی جانچ ایک کثیر مرحلہ کی کوشش تھی جہاں ہم نے نمونے لیے، انہیں ایک گھنٹہ دور شہر کے مرکز تک لے گئے، نتائج آنے کے لیے ہفتوں تک انتظار کیا، اور پھر انھیں لیبارٹری سے جمع کرنا پڑا۔ ہمیں یہ عمل اتنا مشکل لگا کہ ہم نے تین سالوں میں کل تین بار مٹی کی جانچ کی ہے۔
نتیجہ: علم ایک سماجی پیداواری قوت ہے
‘زرعی سوال’ پر اپنے مضمون میں، لودھی نے استدلال کیا ہے کہ چھوٹے کسانوں کے لیے مختص پائدار نظام زراعت کے لیے “پوسٹ کیپٹلسٹ زرعی اور غیر زرعی متبادل کو بنیاد بنا کر” پیداوار کے متبادل طریقوں کی دریافت ضرورت ہے (اکرم لودھی 2021، 710)۔ تاہم، یہ تبدیلی انفرادی سطح پر ایک حاوی و جابر سرمایہ دارانہ، صنعتی زرعی نظام میں نہیں ہو سکتی جس کی بنیاد میں ہی کسانوں اور دیہی مزدوروں کی پیداواری تکنیکوں میں مہارت و ہنرمندی میں انحطاط ہے (اکرم لودھی 2021، 697)۔ میرے فارم جیسا تجربہ کھیتوں، گاؤں اور علاقائی پس منظر میں اور کاشتکاری کے سماجی و ماحولیاتی رشتوں اور طریقوں سے جڑے بغیر ایک ناکام کوشش ہے۔
زرعی ماحولیاتی تبدیلیاں/ایگرو اکولوجی کئی کی جگہوں میں کامیاب رہی ہیں. ایسی مثالیں موجود ہیں جہاں چھوٹے کسانوں کو ریاست نے بڑے پیمانے پر منظم کیا ہے ۔ پورے نظام کی تبدیلی کے لئے ایک ایسی ہی منظم کوشش ضروری ہے جو کاشتکاری کے علم اور ہنر کی ترقی کو پیداوار کی کلیدی قوت کے طورپر ترجیح دے۔ ہم اب تک اپنی کوشش میں ناکام رہے ہیں کیونکہ یہ کوشش ایک تنہا فارم کی خستہ حال مٹیوں میں کی گئی جو پیداوار کے ایک معاندانہ نظام سے جڑی زمینوں میں گھرا ہوا تھا۔
میں نے ابھی تک یہی سیکھا ہے کہ ترقی اس وقت تک ممکن نہیں جب تک تحقیق ایسے مددگار ماحول پر مبنی نہ ہو جس میں سرمایہ دارانہ سماجی نظام کو پیچھے چھوڑ کر ایک post capitalistic متبادل کی طرف بڑھا جائے۔ میرے ایک ننھے سے فارم کے تجربے سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ دنیا میں علم و اگہی کو پیداواری قوت بنانے کے لیے انسانی تعلق کو نسلوں اور برادریوں پر محیط ہونا ضروری ہے ۔