پاکستان میں کورونا وائرس کے لاک ڈاؤن کے آغاز کے بعد سے، مجھے اپنئ PhD کی فیلڈ ریسرچ ، جو ملک کی انسداد دہشت گردی کئ عدالتوں میں ethnography پرمبنی ہے، روک کرلاہور میں اپنے والیدین کے گھرپرغیر معینہ مدت تک رہنا پڑا ہے، کیونکہ آسٹریلیا کی سرحدیں بھی عارضی ویزا رکھنے والوں کے لئے بند کردی گۂی ہیں۔ لیکن کورونا وائرس کی وبا پھیلنے سے بہت پہلے مجھے یہ احساس ہو گیا تھا کہ ایک پاکستانی پاسپورٹ والی مسلمان عورت کی حیثیت سے، PhD/academic زندگی کا ہر مرحلہ میرے لیے دوگنا مشکل ہے۔ آسٹریلیا جانے کے لئے ویزا حاصل کرنے سے لے کر، بین الاقوامی کانفرنسوں کے لیے ویزا درخواست دینے، ویزا حاصل کرنے اورکانفرنسوں پرسفر کرنے، اور تحقیقی اخلاقیات سے لے کر Fieldwork travel approval حاصل کرنے تک، مجھے ہر مرحلے پراپنے ساتھیوں کے مقابلے میں دوگنا محنت کرنا پڑتی رہی۔
Covid-19 کے پھیلنے نے اس عمل کو مزید مشکل اور پیچیدہ بنا دیا ہے۔ جب کہ Breaking news اور وبا کے اعداد و شمار کی کثرت سے اندازہ ہوتا کہ باہردنیا کی رفتاربہت تیزہو گی ہے، اس کے برکس یوں محسوس ہوتا ہےکہ میری اپنی زندگی معطل کردی گئ ہے۔ امکان ہے کہ آسٹریلیا کے “غیر شہریوں” کے لئے بین الاقوامی سفر اگلے سال تک ممکن نہیں ہوگا ، لہذا سڈنی واپس لوٹنے کا توسوال نہں اٹھتا۔ دریں اثنا ، پاکستان میں کورونا وائرس تیزی سے پھیل رہا ہے۔ (موجودہ تعداد 300 سے زیادہ اموات، اور متاثرین کی تعداد 15,000 سے زیادہ ہوچکی ہے) اور حکومت اس تذبذب کا شکار ہے کے لاک ڈاؤن اٹھا کر وائرس سے بڑے پیمانےپربیماری اوراموات کا خطرہ مول لیا جاے یا اس میں توسیع کرکے غریب عوام کوبھوک سے مرنے دیا جاے اور شہری بدامنی کی راہ ہموار کی جاے۔ اس تناظر میں کس حد تک اورکس نوعیت کی تحقیق ممکن ہے، یہ کہنا مشکل ہے۔
جیسے بہت سارے مفسرین نے بتایا ہے ، یہ عالمی وبا سرمایہ داری اور neoliberal پالیسیوں ،Austerity اور نجکاری کے نقصان دہ پہلوؤں کو بے نقاب کرتی ہے۔ پاکستان نے بھی IMF کے ساتھ بہت سارے معاہدے کیے جن میں 1980 کی دہائی سے
Structural Adjustment پروگرام شامل ہیں جو غربت کے بڑھنے کا باعث بنے۔ لیکن پاکستان کے معاملے میں ، ایک رجحان نے اس حقیقت کو مزید تقویت بخشی ہے اور وہ یہ کہ ملک کے GDP کا ایک بڑا حصہ فوجی اور سیکیورٹی سے متعلق کاموں کے ذریعہ کھایا جاتا ہے۔ جس وجہ سے صحت عامہ پر خرچ کرنے کے لیے کچھ نہں بچتا۔ ان حلات میں Covid-19 جیسی صحت عامہ کی ایمرجنسی کے اثرات تباہ کن ثابت ہو سکتے ہیں۔ مگر یہ اثرات پوری آبادی میں مختلف سطح پر تقسیم ہوتے ہیں ، اور اس غیر مساوی تقسیم کا تعلق طبقے ، صنف ، جغرافیہ ، اور پیشہ ورانہ وابستگی سے ہے۔ جہاں درمیانے اور اعلی طبقے کے لوگ اپنے گھروں میں رہ کر Social distancing کرسکتےہیں، وہاں غریب، مزدور، اورکچی آبادیون کے رہیشی بھوک، اور پولیس کے تشدد کا شکار ہیں۔ خواتین گھریلو تشدد کا سامنا کررہی ہیں ، کیونکہ عوامی پناہ گاہوں کو غیر ضروری سمجھ کر انہیں بند کردیا ہے۔ Young doctors ذاتی تحفظ کے سازوسامان کی عدم فراہمی پر احتجاج کرنے پر پولیس کے ہاتھوں مار کھا رہے ہیں۔ سیاسی قیدیوں کو بھری جیلوں میں ،جہاں وباء تیزی سے پیھل سکتی ہے، اپنی جان کا خطرہ ہے ، کیوں کہ عدالت عظمی نے ان کو ضمانت دینے سے انکار کردیا ہے۔ اور یہ سب بڑے شہری مراکز سے متعلق اکاؤنٹس ہیں ، ان پسماندہ علاقوں کا کیا جہاں جنگ ، عسکریت پسندی اور Militarization نے کئی دہائیوں سے تباہی مچا رکھی ہے؟ اس وائرس کےبا عث وہاں کے رہنے والوں کے لیے کون سی نئی وحشت لاحق ہوگی؟
Do Not Travel- خطرہ تفویض کرنے پر
تحقیق ، اور ہماری تحقیق کی Field sites اکثراوقات سیاسی اہمیت رکھتی ہیں ۔میری تحقیقی اخلاقیات کی منظوری حاصل کرنے کا عمل اس کا سبق تھا: پاکستان ، دہشت گردی ، عدالتیں ، ethnography- یہ الفاظ ایک ہی جملے میں اکٹھےدیکھ کر تحقیقی اخلاقیات کمیٹی کے رونگٹے کھڑے ہو گے۔ مجھےنا صرف 6 صفحے پر مشتمل سوالات کا جواب دینا پڑا بلکہ یونیورسٹی کی Risk Assessment Committee سے پاکستان میں تحقیق کرنے جانے کے لیے بھی Travel Approval کی درغواست دینے پڑی۔ آسٹریلیائی محکمہ برائے امور خارجہ اور تجارت کی “سفر کے متعلق ہدایات” کے مطابق پاکستان کے نصف حصے ، جہاں میں تحقیق کرنا چھاتی تھی، کا شمار “سطح 3: Reconsider Travel” میں ہوتا تھا۔ لیکن میری ایک Research Field site، یعنی پشاور، کا شمار “سطح 4: Do Not Travel” میں تھا۔
ایک اہم شہری مرکز اور ایک صوبائی دارالحکومت ہونے کے باوجود ، کیونکہ پشاور دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ میں ایک اہم گڑھ بھی رہا ہے ، وہ آسانی سے ”خطرناک“ ، “Risky”، “پسماندہ” وغیرہ کے تصورات میں فٹ ہوجاتا ہے۔ یہی وجا تھی کہ International SOS کی منظوری اور سفر کے لئے انشورنس ملنے کے حقیقی امکان کے باوجود Risk Assessment Committee سے تعلق رکھنے والی ایک سفید فام آسٹریلوی خاتون نے مجھے پشاور کے لئے سفری منظوری کے بارے میں تاخیر کی وضاحت کرتےہو ہے کھا کی اس کی وجہ یہ ہے کے وہ اس بات سے “comfortable” نہی ۔ حیرت کن بات یہ ہے کہ اس کے صرف چند ماہ بعد ہی ایک وبائی مرض نے پوری دنیا کو”سطح 4: Do Not Travel” کی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ اور مغرب کے متعدد حصے پشاور یا پاکستان سے موازنہ کرنے پریکساں “خطرناک” دکھائی دیتے ہیں۔
دہشتگرد اور غدار: شبہات تفویض کرنے پر
جب میں جنوری کے آخر میں لاہور پہنچی تو میں انسداد دہشت گردی عدالتوں (ATC) میں مقدمات کا مشاہدہ کرنا چاہتی تھی۔ پاکستان کی ATCs انسداد دہشت گردی ایکٹ 1997 کے تحت قائم خصوصی سویلین عدالتیں ہیں اور عام فوجداری عدالتوں سے الگ ہیں۔ وہ ایسے مقدمات سنتی ہیں جو مذکورہ بالا ایکٹ کے تحت Charge کیے گئے ہوں۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے پس منظر میں ، اس ایکٹ کو بائیں بازو اور دائیں دونوں طرف سے سیاسی کارکناوں کو ہراساں کرنے اور ان پرSurveillace کرنے کے لیے استعمال کیا گیا ہے۔
اس سے پہلے کہ میں انسداد دہشت گردی ایکٹ 1997 کے اطلاق کو دیکھنے کے لئے ATCs میں قدم رکھ سکوں ، مجھے Legal security state کے ایک اور پہلو کودیکھنا پڑا ، جس کا حالیہ ماضی میں زیادہ استعمال نہیں ہوا تھا:استعماریتی عہد کا Sedition کا قانون۔ لاہور اور اسلام آباد میں بائیں بازو کے کارکنوں کے گروپوں کے خلاف ملک بغاوت کے الزامات کے تحت دو مختلف مقدمات درج کیے گئے تھے۔ جب کہ بالآخر اسلام آباد کا مقدمہ خارج کردیا گیا ، اس معاملے کی سماعت لاہور میں اسٹوڈنٹ یکجہتی مارچ کے منتظمین کے خلاف (جوطلباء یونین کی بحالی کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں) مقدمے کی سماعت عام فوجداری عدالتوں میں ہوگی۔ ایک پشتون طالب علم کی لاہور ہائیکورٹ میں ضمانت کی سماعت کے موقع پر ، جسکی اس مارچ پرتقریرپر پاکستان مخالف ہونے کا الزام لگایا گیا ہے، بہت مقدارمیں پولیس جمع تھی۔ ہوں لگتا تھا کہ حکام ان نوجوان پشتون طلباء، جو اپنے ساتھی کے ساتھ Solidarity میں عدالت کے باہر جمعہ تھے، سے بہت خوفزدہ ہیں۔ شاید انھیں خدشہ تھا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگی تباہ کاریوں سے متاثر پشتون برادریوں کے آئینی حقوق کے لئے نوجوانوں کی قیادت میں چلنے والی تحریک ، پشتون تحفوز موومنٹ (PTM) کی حمایت میں نعرے لاہور ہائی کورٹ کی حد میں لگائے جائیں گے۔ “ان طلباء کو کمرہ عدالت کے قریب کسی صورت نا آنے دیں!” میں نے عدالتی عملےکو کمرہ عدالت کے باہر پولیس اہلکاروں کو ہدایت دیتے ہوئےسنا “وہ (ملزم) اپنی یونیورسٹی میں قائد رہ سکتا ہے ، اس کا یہاں کوئی اثرو رسوخ نہیں”
پاکستان میں Securitization (قانونی طور پر اور عسکری طور پر) بہت سارے vectors پر چلتی ہے ، اور نسل یا ethnicity اس کا ایک اہم حصہ ہے۔ اگرچہ پشتون شناخت اور سیاست پر ریاست کے شبہات Colonial اور post-colonial تاریخ سے وابستہ ہیں، لیکن دہشت گردی کے خلاف جنگ نے انھیں نئی شدت بخشی ہے۔ اور اب کیو نکہ دہشت گردی کی جنگ کچھ حد تک ایپنے اختتام کو پہنچ رہی ہے اور PTM جیسی ایک وسیع پیمانے پر مقبول سماجی تحریک جس کے ذریعے ریاست سے احتساب کا مطالبہ کیا گیا ہے جس میں Truth Commissions کا قیام بھی شامل ہے ؛ ریاست نے، “دہشت گردی” کے قانون کی جگہ ایک بارپھراستعماریتی عہد کے “غداری” یا Sedition کے قانون کئ مدد لینا شروع کی ہے۔
بغاوت کا قانون تاریخ میں مختلف طریقوں سے استعمال ہوا: برطانوی ہند میں بغاوت کے الزام میں مجرم قرار پانے والے پہلے
شخص بال گنگا دھار تلک تھے ، جو ہندوستان میں بوبونک طاعون کے پھیلاؤ پراستعماریتی ریاست کے ردعمل (مثال کے طور پر وبائی امراض ایکٹ 1897 کے تحت طاعون کے معائنے کے سلسلے میں خواتین کو ٹرینوں سے جبری طور پربے دخل کرنا) پر تنقید کرنے پر شبہے میں آے۔ ۔ آج پاکستان میں بہت ساری مقامی حکومتیں کورونا وائرس سے نمٹنے کے لئے اسی وبائ بیماریوں کے ایکٹ کواستعمال کررہی ہیں ، اور فوج کو امدادی اور Policing دونوں ہی مقاصد کے لئے جگہ جگہ تعینات کیا گیا ہے۔
پاکستان کے Legal security کے نظام میں Covid-19 کے تحت کیا تبدیلیاں آیں گی ، یہ دیکھنا باقی ہے۔ لیکن عالمی رجحانات سےظاہرہوتا ہے کہ ہر طرف عسکریت پسندی اور جبر بڑھ رہا ہے ، اور پاکستان کی تاریخ کو دیکھتے ہوئے ، یہاں بھی ایسا ہی ہونے کا امکان ہے۔ حکومت نے پہلے ہی اعلان کیا ہے کہ اب ملک کی انٹیلیجنس سروسز ایجنسی (ISI) کے ذریعہ دہشت گردوں کا سراغ لگانے کے لئے تیار کردہ سافٹ ویئر کے ذریعے کورونا مریضوں اور ان کے رابطوں کا سراغ لگایا جائے گا۔ معلوم ہوتا ہےکے صحت عامہ کی ایمرجنسی اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کی technologies کے مابین حدود شاید ابھی سے دھندلا ہونا شروع ہوگئ ہیں۔